: نقشہ اور قطب نما استعمال کرنے کا فن

ایک زمانہ تھا جب دنیا میں جی پی ایس یا گوگل میپ جیسی سہولت موجود نہیں تھی۔ سفر کرنے والے، مہم جو اور سیاح اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کاغذی نقشوں اور قطب نما پر انحصار کرتے تھے۔ یہ ایک ایسا فن تھا جس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مشق، صبر اور مشاہدے کی ضرورت ہوتی تھی۔

کاغذی نقشہ صرف ایک تصویر نہیں ہوتا بلکہ اس میں پہاڑ، دریا، سڑکیں، گاؤں اور شہروں کے مقامات خاص علامتوں کے ساتھ دکھائے جاتے تھے۔ نقشہ پڑھنے کے لیے سب سے پہلے اس کے پیمانے (Scale) اور سمتوں کو سمجھنا ضروری ہوتا۔ شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کی پہچان کے بغیر نقشہ بیکار ہو جاتا۔ اسی لیے نقشہ کے ساتھ ہمیشہ قطب نما رکھا جاتا، جو سمتوں کی درست نشاندہی کرتا تھا۔

قطب نما کا استعمال بظاہر آسان لگتا ہے لیکن اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے دھیان اور احتیاط ضروری تھی۔ آپ اسے سیدھا ہاتھ میں پکڑتے اور اس کی سوئی کو آزادانہ گھومنے دیتے۔ جب سوئی شمال کی طرف اشارہ کرتی تو باقی سمتوں کا تعین آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔ اس کے بعد آپ نقشہ کو اسی سمت میں سیدھ میں رکھتے اور اپنی پوزیشن کا اندازہ لگاتے۔

یہ فن صرف سفر یا مہم جوئی تک محدود نہیں تھا بلکہ فوجی آپریشنز، جنگلات کی کھوج، اور سمندری سفر میں بھی اس کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ نقشہ اور قطب نما کی مدد سے انسان دور دراز علاقوں میں بھی اپنی منزل تک پہنچ سکتا تھا، چاہے وہاں کوئی سڑک یا نشان موجود نہ ہو۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں یہ ہنر تقریباً ختم ہو گیا ہے کیونکہ ہم صرف ایک موبائل ایپ کھول کر راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ لیکن اگر کبھی آپ کسی ایسی جگہ پھنس جائیں جہاں سگنل یا بیٹری نہ ہو، تو یہ پرانا ہنر آپ کی جان بھی بچا سکتا ہے۔ اسی لیے مہم جو آج بھی نقشہ اور قطب نما کا استعمال سیکھتے ہیں تاکہ ہنگامی حالات میں ان کا سہارا لے سکیں۔

یہ فن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان نے ٹیکنالوجی آنے سے پہلے بھی ہوش، عقل اور سادہ اوزاروں کی مدد سے دنیا کی کھوج کی تھی۔ اگر آپ کو موقع ملے تو اس ہنر کو ضرور سیکھیں، کیونکہ یہ صرف ایک مہارت نہیں بلکہ ماضی کی ایک خوبصورت یادگار بھی ہے۔



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مجھے خود کو بہتر بنانے کیلیے ہر روز کیا کرنا چاہئے؟

وہ کون سی چیزیں ہیں جو ہم (شاید) اپنے پیٹ کے بٹن کے بارے میں نہیں جانتے تھے؟

Evolution of traffic