اشاعتیں

تصویر
بغیر جدید آلات کے کھانا پکانے کا پرانا طریقہ آج کے دور میں مائیکروویو، الیکٹرک اوون، بلینڈر اور گیس کے چولہے کھانا پکانے کو آسان بنا دیتے ہیں۔ لیکن ایک وقت ایسا تھا جب لوگ یہ سب سہولتیں نہ ہونے کے باوجود مزیدار اور صحت مند کھانے پکاتے تھے۔ یہ طریقے محنت طلب ضرور تھے، مگر ان میں وہ ذائقہ اور خوشبو ہوتی تھی جو جدید آلات میں بنے کھانوں میں کم ہی ملتی ہے۔ پرانے زمانے میں زیادہ تر کھانا لکڑی یا کوئلے کے چولہے پر پکایا جاتا تھا۔ لکڑی کی آنچ دھیرے دھیرے کھانے کو پکاتی، جس سے گوشت نرمی اور ذائقے میں لاجواب ہو جاتا۔ روٹیاں تندور یا چولہے پر لوہے کی بڑی توے پر بنتیں، اور ان کی خوشبو پورے گھر میں پھیل جاتی۔ سبزیوں کو کاٹنے کے لیے چاقو کے بجائے لکڑی کے تختے اور ہاتھ سے چلنے والے آلے استعمال کیے جاتے تھے۔ اس دور میں مصالحے بھی آج کی طرح پیکٹ میں تیار نہیں ملتے تھے۔ لوگ مرچ، ہلدی، اور دھنیا خود پیستے تھے، اکثر پتھر کی سل اور لوہے کی ہاون دستہ میں۔ یہ محنت ذائقے کو کئی گنا بڑھا دیتی تھی۔ اسی طرح مکھن اور دہی بھی گھر میں ہی بنایا جاتا، اور گھی مٹی کے برتنوں میں محفوظ کیا جاتا۔ بغیر فریج کے گوشت ...
تصویر
ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا پرانا شوق ڈاک ٹکٹ جمع کرنا ایک ایسا مشغلہ ہے جو ایک زمانے میں بچوں سے لے کر بڑوں تک سب میں مقبول تھا۔ یہ صرف ایک تفریح نہیں بلکہ ایک تعلیمی اور معلوماتی سرگرمی بھی تھی۔ پرانے زمانے میں جب لوگ خط لکھتے اور ایک دوسرے کو خطوط بھیجتے تھے، تو ہر خط پر لگنے والا ڈاک ٹکٹ اپنے اندر ایک کہانی رکھتا تھا۔ کسی ٹکٹ پر کسی مشہور شخصیت کی تصویر ہوتی، کسی پر تاریخی عمارت، اور کسی پر قومی ورثے کی جھلک۔ یہ شوق رکھنے والے لوگ ڈاک ٹکٹوں کو بڑی محبت اور محنت سے جمع کرتے تھے۔ وہ لفافوں سے ٹکٹ احتیاط سے کاٹ کر نکالتے، پھر انہیں پانی میں بھگو کر گوند سے الگ کرتے اور خشک ہونے کے بعد ایک خاص البم میں محفوظ کرتے۔ ہر ٹکٹ کے ساتھ اس کی تاریخ، ملک اور خاص بات لکھنا بھی ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یہ عمل نہ صرف خوبصورت ٹکٹ جمع کرنے کا ذریعہ بنتا تھا بلکہ مختلف ملکوں اور ثقافتوں کے بارے میں علم بھی فراہم کرتا تھا۔ ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا سب سے بڑا حسن یہ تھا کہ یہ ایک صبر آزما شوق تھا۔ نایاب ٹکٹ تلاش کرنے کے لیے لوگوں کو دوسرے شوقین افراد سے تبادلہ کرنا پڑتا، یا ڈاک خانوں سے نئے ٹکٹ خریدنے پڑتے۔ بعض او...
تصویر
پرانے گھریلو ٹوٹکے جو آج بھی کارآمد ہیں پرانے وقتوں میں جب میڈیکل اسٹورز اور مہنگی دوائیں ہر جگہ دستیاب نہیں تھیں، لوگ گھریلو ٹوٹکوں سے علاج کرتے تھے۔ یہ نسخے نسل در نسل منتقل ہوتے آئے ہیں اور آج بھی اپنی افادیت رکھتے ہیں۔ ان ٹوٹکوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ سادہ، کم خرچ اور قدرتی ہوتے تھے، اس لیے ان کے مضر اثرات نہ ہونے کے برابر تھے۔ مثال کے طور پر، نزلہ زکام یا کھانسی کی صورت میں شہد اور ادرک کا قہوہ سب سے عام اور مؤثر علاج سمجھا جاتا تھا۔ شہد میں موجود قدرتی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات اور ادرک کی گرمی گلے کو آرام دیتی اور بلغم کو کم کرتی تھی۔ اسی طرح پیٹ کے درد یا بدہضمی کے لیے زیرہ اور سونف کا قہوہ پیا جاتا تھا، جو آج بھی ہاضمے کے لیے بہترین مانا جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں جلدی زخم کے لیے ہلدی کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ ہلدی کو پانی یا دودھ کے ساتھ ملا کر لگانے سے زخم جلدی خشک ہوتا اور انفیکشن سے بچاؤ ہوتا۔ آنکھوں کی لالی یا جلن میں عرق گلاب کا استعمال عام تھا، جبکہ دانتوں کے درد میں لونگ کا تیل لگانے سے فوراً آرام آتا تھا۔ گھریلو صفائی کے لیے بھی لوگ قدرتی چیزیں استعمال کرتے تھے۔ مثال ک...
تصویر
 ۔ : ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا پرانا شوق ڈاک ٹکٹ جمع کرنا ایک ایسا مشغلہ ہے جو ایک زمانے میں بچوں سے لے کر بڑوں تک سب میں مقبول تھا۔ یہ صرف ایک تفریح نہیں بلکہ ایک تعلیمی اور معلوماتی سرگرمی بھی تھی۔ پرانے زمانے میں جب لوگ خط لکھتے اور ایک دوسرے کو خطوط بھیجتے تھے، تو ہر خط پر لگنے والا ڈاک ٹکٹ اپنے اندر ایک کہانی رکھتا تھا۔ کسی ٹکٹ پر کسی مشہور شخصیت کی تصویر ہوتی، کسی پر تاریخی عمارت، اور کسی پر قومی ورثے کی جھلک۔ یہ شوق رکھنے والے لوگ ڈاک ٹکٹوں کو بڑی محبت اور محنت سے جمع کرتے تھے۔ وہ لفافوں سے ٹکٹ احتیاط سے کاٹ کر نکالتے، پھر انہیں پانی میں بھگو کر گوند سے الگ کرتے اور خشک ہونے کے بعد ایک خاص البم میں محفوظ کرتے۔ ہر ٹکٹ کے ساتھ اس کی تاریخ، ملک اور خاص بات لکھنا بھی ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یہ عمل نہ صرف خوبصورت ٹکٹ جمع کرنے کا ذریعہ بنتا تھا بلکہ مختلف ملکوں اور ثقافتوں کے بارے میں علم بھی فراہم کرتا تھا۔ ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا سب سے بڑا حسن یہ تھا کہ یہ ایک صبر آزما شوق تھا۔ نایاب ٹکٹ تلاش کرنے کے لیے لوگوں کو دوسرے شوقین افراد سے تبادلہ کرنا پڑتا، یا ڈاک خانوں سے نئے ٹکٹ خریدنے پڑتے...
تصویر
: نقشہ اور قطب نما استعمال کرنے کا فن ایک زمانہ تھا جب دنیا میں جی پی ایس یا گوگل میپ جیسی سہولت موجود نہیں تھی۔ سفر کرنے والے، مہم جو اور سیاح اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کاغذی نقشوں اور قطب نما پر انحصار کرتے تھے۔ یہ ایک ایسا فن تھا جس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مشق، صبر اور مشاہدے کی ضرورت ہوتی تھی۔ کاغذی نقشہ صرف ایک تصویر نہیں ہوتا بلکہ اس میں پہاڑ، دریا، سڑکیں، گاؤں اور شہروں کے مقامات خاص علامتوں کے ساتھ دکھائے جاتے تھے۔ نقشہ پڑھنے کے لیے سب سے پہلے اس کے پیمانے (Scale) اور سمتوں کو سمجھنا ضروری ہوتا۔ شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کی پہچان کے بغیر نقشہ بیکار ہو جاتا۔ اسی لیے نقشہ کے ساتھ ہمیشہ قطب نما رکھا جاتا، جو سمتوں کی درست نشاندہی کرتا تھا۔ قطب نما کا استعمال بظاہر آسان لگتا ہے لیکن اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے دھیان اور احتیاط ضروری تھی۔ آپ اسے سیدھا ہاتھ میں پکڑتے اور اس کی سوئی کو آزادانہ گھومنے دیتے۔ جب سوئی شمال کی طرف اشارہ کرتی تو باقی سمتوں کا تعین آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔ اس کے بعد آپ نقشہ کو اسی سمت میں سیدھ میں رکھتے اور اپنی پوزیشن کا اندازہ لگاتے۔ یہ فن صرف...
تصویر
ہاتھ سے خط لکھنے کا فن اور اس کی اہمیت ہاتھ سے خط لکھنے کا رواج ایک زمانے میں زندگی کا لازمی حصہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب موبائل فون، ای میل اور سوشل میڈیا کا وجود نہیں تھا۔ لوگ اپنے جذبات، خیالات اور حالات دوسروں تک پہنچانے کے لیے قلم اور کاغذ کا سہارا لیتے تھے۔ ایک خط صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا تھا بلکہ اس میں لکھنے والے کا دل، اس کی شخصیت اور اس کی محبت جھلکتی تھی۔ خط لکھنے کا سب سے پہلا قدم ایک اچھا کاغذ اور پین منتخب کرنا تھا۔ پرانے زمانے میں لوگ خاص طور پر خوشبو والے کاغذ یا رنگین لفافے استعمال کرتے تھے تاکہ پڑھنے والے کو ایک خاص احساس ملے۔ تحریر ہمیشہ صاف اور خوش خط لکھی جاتی تھی۔ گرامر اور الفاظ کے انتخاب پر خاص توجہ دی جاتی تھی کیونکہ خط نہ صرف پیغام بلکہ لکھنے والے کی شخصیت کا عکس ہوتا تھا۔ خط لکھنے کا ایک اور حسن یہ تھا کہ یہ جلد بازی میں نہیں ہوتا تھا۔ آپ آرام سے بیٹھ کر سوچتے، ہر جملہ ترتیب سے لکھتے، اور پھر ایک ایک لفظ کو محبت سے کاغذ پر اتارتے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا تھا جب آپ مکمل طور پر اس شخص کے بارے میں سوچ رہے ہوتے تھے جس کو آپ خط لکھ رہے ہیں۔ یہ رابطے کا ایک انتہائی ...
تصویر
  AI کیا ہے؟ — ایک نئی دنیا کا دروازہ دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے، اور اس ترقی میں سب سے اہم کردار جس چیز کا ہے، وہ ہے: AI — آرٹیفیشل انٹیلیجنس ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ AI آخر ہے کیا؟ کیا یہ انسانوں جیسی ذہانت رکھتا ہے؟ کیا یہ انسانوں کی جگہ لے لے گا؟ آئیے، جانتے ہیں۔ AI کیا ہے؟ AI کا مطلب ہے: Artificial Intelligence یعنی: مصنوعی ذہانت ۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس میں کمپیوٹرز اور مشینز کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ انسانی دماغ کی طرح سوچ سکیں، فیصلے کر سکیں، اور مسائل کا حل نکال سکیں۔ مصنوعی ذہانت کا مقصد AI کا مقصد یہ ہے کہ: ✅ مشینیں خود سے سیکھ سکیں ✅ خود فیصلے کر سکیں ✅ انسانوں کے کام آسان بنا سکیں ✅ وقت اور محنت بچا سکیں AI کیسے کام کرتا ہے؟ AI مشینوں کو ڈیٹا (Data) کے ذریعے سکھاتا ہے۔ جتنا زیادہ ڈیٹا، اتنا زیادہ سیکھنے کا موقع۔ مثال کے طور پر: اگر آپ AI کو ہزاروں تصاویر دکھائیں، تو وہ پہچان سکتا ہے کہ کس تصویر میں بلی ہے اور کس میں کتا۔ چیٹ جی پی ٹی (جیسے آپ ابھی استعمال کر رہے ہیں) AI کی ایک مثال ہے جو زبان سمجھتا اور جواب دیتا ہے۔ AI کی اق...